ایک کسان اپنے مالک کے کھیت میں کام کرتے کرتے سوچنے لگا ۔۔۔ کاش کہ میں مالدار ہوتا تو میں زمین خرید لیتا جس میں میں کھیتی کرتا۔۔میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، لذیذ کھانے کھانا چاہتا ہوں اور آرام دہ گھر میں رہنا چاہتا ہوں, اچانک کسی کی آواز سن کر وہ چونک پڑا جو اعلان کر رہا تھا کہ:" بادشاہ سلامت ان کھیتوں کے پاس والے راستے سے آئندہ ہفتے گزریں گے، اور سبھی کسانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے استقبال اور ان کو سلام کرنے کے لئے صف بستہ ہوکر کھڑے رہیں"۔
کسان نے اپنے دل میں سوچا۔۔۔"یہی موقع ہے۔۔اگر میں نے بادشاہ سے کچھ سونے کے سکے مانگ لئے تو کیا ہوا، اس سے میرے سبھی خواب تو پورے ہو جائیں گے۔۔۔اور وہ کبھی بھی میری درخواست کو رد نہیں کریں گے اس لئے کہ جیسا کہ میں نے سنا ہے وہ اچھے اور بھلے انسان ہیں"
اسی طرح کسان ہفتہ بھرخواب بنتا رہا۔۔۔آخر کار وہ دن بھی آ پہونچا۔ تمام کسان بادشاہ کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف صف بستہ کھڑے تھے۔۔۔ اچانک دور گاڑیاں دکھائی دیں جنھیں گھوڑے کھینچ رہے تھے، کسان شاہی گاڑی کی طرف دوڑ پڑا اور چلانے لگا:"اے بادشاہ۔۔ اے بادشاہ۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے"۔ بادشاہ نے گاڑی کو روکنے کا حکم دیا اور کسان سے پوچھا:"تم کیا چاہتے ہو؟" کسان بہت پریشان ہو گیا اور اس نے کہا :"میں کچھ سونے کے سکے چاہتا ہوں تاکہ میں زمین کا ایک ٹکڑا خرید سکوں"۔ بادشاہ مسکرایا اور اس نے کسان سے کہا:" میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنے پاس سے کوئی چیزدو"
کسان اور بھی پریشان ہو گیا اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ :" اس بادشاہ کی بخیلی کی بھی حد ہو گئی۔۔ میں اس کے پاس آیا تھا کہ مجھے کچھ دے اور اب وہ خود مجھ ہی سے مانگ رہا ہے"۔۔ کچھ دیرسوچنے کے بعد اس نے چاولوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی سے جو اس کے ہاتھ میں تھی چاول کا ایک دانہ نکالا اور اسے بادشاہ کو دیدیا، بادشاہ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور قافلے کو دوبارہ چلنے کا حکم دیا۔۔ نامراد ہوکر کسان کبیدہ خاطر اپنے گھر واپس لوٹ آیا، اور اپنی بیوی کو چاولوں کی تھیلی دی کہ اسے پکا دے۔۔اچانک اس کی بیوی چلائی کہ:" مجھے چاولوں کے بیچ اصلی سونے کا چاول کا ایک دانہ ملا ہے" اب کسان انتہائی تکلیف سے چیخ پڑا: "کاش کہ میں نے بادشاہ کو سارے چاول دے دئیے ہوتے"
یہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے، یہاں ہم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے، آخرت میں جب اس کا اجر و ثواب دیکھیں گے تو خواہش کریں گے کہ کاش ہم نے سارا مال ہی راہ خدا میں لٹا دیا ہوتا۔
ارشادِ بارى تعالٰى ہے
"بے شک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے الله کو اچھا قرض دیا ان کے لیے دگنا کیا جائے گا اور انہیں عمدہ بدلہ ملے گا." (سورة الحديد-18
ایک کسان اپنے مالک کے کھیت میں کام کرتے کرتے سوچنے لگا ۔۔۔ کاش کہ میں مالدار ہوتا تو میں زمین خرید لیتا جس میں میں کھیتی کرتا۔۔میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، لذیذ کھانے کھانا چاہتا ہوں اور آرام دہ گھر میں رہنا چاہتا ہوں, اچانک کسی کی آواز سن کر وہ چونک پڑا جو اعلان کر رہا تھا کہ:" بادشاہ سلامت ان کھیتوں کے پاس والے راستے سے آئندہ ہفتے گزریں گے، اور سبھی کسانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے استقبال اور ان کو سلام کرنے کے لئے صف بستہ ہوکر کھڑے رہیں"۔
کسان نے اپنے دل میں سوچا۔۔۔"یہی موقع ہے۔۔اگر میں نے بادشاہ سے کچھ سونے کے سکے مانگ لئے تو کیا ہوا، اس سے میرے سبھی خواب تو پورے ہو جائیں گے۔۔۔اور وہ کبھی بھی میری درخواست کو رد نہیں کریں گے اس لئے کہ جیسا کہ میں نے سنا ہے وہ اچھے اور بھلے انسان ہیں"
اسی طرح کسان ہفتہ بھرخواب بنتا رہا۔۔۔آخر کار وہ دن بھی آ پہونچا۔ تمام کسان بادشاہ کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف صف بستہ کھڑے تھے۔۔۔ اچانک دور گاڑیاں دکھائی دیں جنھیں گھوڑے کھینچ رہے تھے، کسان شاہی گاڑی کی طرف دوڑ پڑا اور چلانے لگا:"اے بادشاہ۔۔ اے بادشاہ۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے"۔ بادشاہ نے گاڑی کو روکنے کا حکم دیا اور کسان سے پوچھا:"تم کیا چاہتے ہو؟" کسان بہت پریشان ہو گیا اور اس نے کہا :"میں کچھ سونے کے سکے چاہتا ہوں تاکہ میں زمین کا ایک ٹکڑا خرید سکوں"۔ بادشاہ مسکرایا اور اس نے کسان سے کہا:" میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنے پاس سے کوئی چیزدو"
کسان اور بھی پریشان ہو گیا اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ :" اس بادشاہ کی بخیلی کی بھی حد ہو گئی۔۔ میں اس کے پاس آیا تھا کہ مجھے کچھ دے اور اب وہ خود مجھ ہی سے مانگ رہا ہے"۔۔ کچھ دیرسوچنے کے بعد اس نے چاولوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی سے جو اس کے ہاتھ میں تھی چاول کا ایک دانہ نکالا اور اسے بادشاہ کو دیدیا، بادشاہ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور قافلے کو دوبارہ چلنے کا حکم دیا۔۔ نامراد ہوکر کسان کبیدہ خاطر اپنے گھر واپس لوٹ آیا، اور اپنی بیوی کو چاولوں کی تھیلی دی کہ اسے پکا دے۔۔اچانک اس کی بیوی چلائی کہ:" مجھے چاولوں کے بیچ اصلی سونے کا چاول کا ایک دانہ ملا ہے" اب کسان انتہائی تکلیف سے چیخ پڑا: "کاش کہ میں نے بادشاہ کو سارے چاول دے دئیے ہوتے"
یہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے، یہاں ہم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے، آخرت میں جب اس کا اجر و ثواب دیکھیں گے تو خواہش کریں گے کہ کاش ہم نے سارا مال ہی راہ خدا میں لٹا دیا ہوتا۔
ارشادِ بارى تعالٰى ہے
"بے شک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے الله کو اچھا قرض دیا ان کے لیے دگنا کیا جائے گا اور انہیں عمدہ بدلہ ملے گا." (سورة الحديد-18
ایک کسان اپنے مالک کے کھیت میں کام کرتے کرتے سوچنے لگا ۔۔۔ کاش کہ میں مالدار ہوتا تو میں زمین خرید لیتا جس میں میں کھیتی کرتا۔۔میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، لذیذ کھانے کھانا چاہتا ہوں اور آرام دہ گھر میں رہنا چاہتا ہوں, اچانک کسی کی آواز سن کر وہ چونک پڑا جو اعلان کر رہا تھا کہ:" بادشاہ سلامت ان کھیتوں کے پاس والے راستے سے آئندہ ہفتے گزریں گے، اور سبھی کسانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے استقبال اور ان کو سلام کرنے کے لئے صف بستہ ہوکر کھڑے رہیں"۔
کسان نے اپنے دل میں سوچا۔۔۔"یہی موقع ہے۔۔اگر میں نے بادشاہ سے کچھ سونے کے سکے مانگ لئے تو کیا ہوا، اس سے میرے سبھی خواب تو پورے ہو جائیں گے۔۔۔اور وہ کبھی بھی میری درخواست کو رد نہیں کریں گے اس لئے کہ جیسا کہ میں نے سنا ہے وہ اچھے اور بھلے انسان ہیں"
اسی طرح کسان ہفتہ بھرخواب بنتا رہا۔۔۔آخر کار وہ دن بھی آ پہونچا۔ تمام کسان بادشاہ کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف صف بستہ کھڑے تھے۔۔۔ اچانک دور گاڑیاں دکھائی دیں جنھیں گھوڑے کھینچ رہے تھے، کسان شاہی گاڑی کی طرف دوڑ پڑا اور چلانے لگا:"اے بادشاہ۔۔ اے بادشاہ۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے"۔ بادشاہ نے گاڑی کو روکنے کا حکم دیا اور کسان سے پوچھا:"تم کیا چاہتے ہو؟" کسان بہت پریشان ہو گیا اور اس نے کہا :"میں کچھ سونے کے سکے چاہتا ہوں تاکہ میں زمین کا ایک ٹکڑا خرید سکوں"۔ بادشاہ مسکرایا اور اس نے کسان سے کہا:" میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنے پاس سے کوئی چیزدو"
کسان اور بھی پریشان ہو گیا اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ :" اس بادشاہ کی بخیلی کی بھی حد ہو گئی۔۔ میں اس کے پاس آیا تھا کہ مجھے کچھ دے اور اب وہ خود مجھ ہی سے مانگ رہا ہے"۔۔ کچھ دیرسوچنے کے بعد اس نے چاولوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی سے جو اس کے ہاتھ میں تھی چاول کا ایک دانہ نکالا اور اسے بادشاہ کو دیدیا، بادشاہ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور قافلے کو دوبارہ چلنے کا حکم دیا۔۔ نامراد ہوکر کسان کبیدہ خاطر اپنے گھر واپس لوٹ آیا، اور اپنی بیوی کو چاولوں کی تھیلی دی کہ اسے پکا دے۔۔اچانک اس کی بیوی چلائی کہ:" مجھے چاولوں کے بیچ اصلی سونے کا چاول کا ایک دانہ ملا ہے" اب کسان انتہائی تکلیف سے چیخ پڑا: "کاش کہ میں نے بادشاہ کو سارے چاول دے دئیے ہوتے"
یہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے، یہاں ہم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے، آخرت میں جب اس کا اجر و ثواب دیکھیں گے تو خواہش کریں گے کہ کاش ہم نے سارا مال ہی راہ خدا میں لٹا دیا ہوتا۔
ارشادِ بارى تعالٰى ہے
"بے شک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے الله کو اچھا قرض دیا ان کے لیے دگنا کیا جائے گا اور انہیں عمدہ بدلہ ملے گا." (سورة الحديد-18
0 تعليقات